کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اِس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
تہ بہ تہ تیرگیاں ذہن پہ جب ٹوٹتی ہیں
نور ہوجا تا ہےکچھ اور ہویدا تیرا
کچھ نہیں سُوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے
چھلک اُٹھتا ہے میری روح میں مِینا تیرا
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
دستگیری میری تنہائی کی تُو نے ہی تو کی
میں تو مرجاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
تُو بشر بھی ہے مگر فخرِ بشر بھی تُو ہے
مجھ کو تو یاد ہے بس اِتنا سراپا تیرا
میں تجھے عالمِ اَشیَا میں بھی پالیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالمِ بالا تیرا
میری آنکھوں سے جو ڈھونڈیں تجھے ہر سُو دیکھیں
صرف خلوت میں جو کرتے ہیں نظارہ تیرا
وہ اندھیروں سے بھی دَرَّانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے میں چمکتا ہے ستارا تیرا
ندیاں بن کے پہاڑوں میں تو سب گھومتے ہیں
ریگزاروں میں بھی بہتا رہا دریا تیرا
شرق اور غرب میں بکھرے ہوئے گلزاروں کو
نَکہَتیں بانٹتا ہے آج بھی صحرا تیرا
اب بھی ظلمات فروشوں کو گِلہ ہے تجھ سے
رات باقی تھی کہ سورج نکل آیا تیرا
تجھ سے پہلے کا جو ماضی تھا ہزاروں کا سہی
اب جو تاحشر کا فردا ہے وہ تنہا تیرا
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ تیرا
شاعر: احمد ندیم قاسمی
No comments:
Post a Comment