بے طلب بھیک یہاں ملتی ہے آتے جاتے
یہ وہ در ہے کہ جہاں دل نہیں توڑے جاتے
وہ نقابِ رُخِ روشن جو اٹھاتے جاتے
میری بگڑی ہوئی تقدیر بناتے جاتے
اُن کی دہلیز کے منگتے ہیں بڑی موج میں ہیں
ہم سے اغیار کے ٹکڑے نہیں جاتے
اپنا مدفن بھی مقدر سے جو بن جاتابقیع
حشر میں آپؐ کے قدموں سے اٹھائے جاتے
یہ تو سرکارؐ کی رحمت نےہمیں تھام لیا
ورنہ درد رپہ یونہی ٹھوکریں کھائے جاتے
وہ میرے دل کے دھڑکنے کی صدا سنتے ہیں
اس لیے لفظ زباں پر نہیں لائے جاتے
کاش اپنا بھی مدینے میں کوئی گھر ہوتا
دیکھتے روضہءِ سرکارؐکو آتے جاتے
قافلے والوں ذرا ٹھہرو میں آتا ہوں ابھی
ایک اور نعت سُنا لُوں اُنہیں جاتے جاتے
ہم کہاں ہوتے کہاں ہوتی یہ محفل الطاف
خاکِ کربل پہ اگر سر نہ کٹائے جاتے
شاعر: سید الطاف شاہ کاظمی
No comments:
Post a Comment