وہ شہرِ محبت جہاں مصطفیﷺ ہیں وہیں گھر بنانے کو جی چاہتا ہے
وہ سونے سے کنکر وہ چاندی سی مٹی نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے
جو پوچھا نبیﷺ نے کہ کچھ گھر پہ چھوڑا تو صدیقِ اکبر ؓ کے ہونٹوں پہ آیا
وہاں مال ودولت کی کیا ہے حقیقت جہاں جاں لُٹانے کو جی چاہتا ہے
جہادِ محبت کی آواز گونجی کہاحنظلہ نے یہ دلہن سے اپنی
اجازت اگر دو تو جامِ شہادت لبوں سے لگانے کو جی چاہتا ہے
ستاروں سے یہ چاند کہتا ہے ہردم تمہیں کیا بتاؤں وہ ٹکڑوں کا عالم
اشارے میں آقاﷺ کے اتنا مزہ تھا کہ پھر ٹوٹ جانے کو جی چاہتا ہے
وہ ننھا سا اصغرؓ جو ایڑی رگڑ کریہی کہہ رہا تھا وہ خیمے میں روکر
اے بابا میں پانی کا پیاسا نہیں ہوں میرا رَن میں جانے کو جی چاہتا ہے
جو دیکھا ہے رُوئے جمالِ رسالتﷺ تو طاہر عمر مصطفی ؐسےیہ بولے
بڑی آپ سے دشمنی تھی مگر اب غلامی میں آنے کو جی چاہتا ہے
حُسین ابنِ حیدرؓ کا تھا ایک نعرہ مجھے اپنے نانا کا ہے دین پیارا
مجھے تاج ِ سرور کی خواہش نہیں ہے میرا خُلد جانے کو جی چاہتا ہے
شاعر: طاہر رضا
No comments:
Post a Comment