کون سمجھے گا یہاں درد ہمارے سارے
آؤ طیبہ کو چلیں درد کے مارے سارے
کیا کہوں اے میرے لجپال کہ جی جانتا ہے
کیسے دُوری میں شب و روز گزارے سارے
ایسا لگتا ہے کہ جنت میں ہی گزرے وہ پَل
جتنے لمحات مدینے میں گزارے سارے
سیّدہ زہرہ کی جاگیر وہ ایک باغ نہیں
اُن کے قدموں میں ہیں جنت کے کنارے سارے
اک نظر گنبدِ خضرا پہ پڑی اور یکسر
بھولتے ہی گئے دنیا کے نظارے سارے
ہم نے اصحاب سے حسانؔ یہ کہنا سیکھا
تجھ پہ قُربان ہیں ہم اور ہمارے سارے
شاعر: حسان اللہ مصطفی
No comments:
Post a Comment