جگہ جی لگانےکی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسےکیسے
مکیں ہو گئے لامکاں کیسے کیسے
ہُوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی نوجواں کیسے کیسے
اجل نےنہ کِسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
ہر اک لےکے کیا کیا نہ حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یونہی ٹھاٹ سارا
بڑھاپے سے پاکر پیامِ قضا بھی
نہ چونکانہ چہتا نہ سنبھلا ذرا بھی
کوئی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی
جُنوں کب تلک ہوش میں اپنے آ بھی
تجھے پہلے بچپن میں برسوں کِھلایا
جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کردے گی بالکل صفایا
یہی تجھ کو دُھن ہےرہوں سب سے بالا
ہوں زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیایونہی مرنے والا
تجھے حُسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
وہ ہے عیش و عشرت کا کوئی محل بھی
جہاں تاک میں ہر گھڑی ہو اجل بھی
بس اب اپنے اس جہل سےتُو نکل بھی
یہ طرزِ معیشت اب اپنا بدل بھی
یہ دنیائے فانی ہے محبوب تجھکو
ہُوئی آہ کیا چیز مرغوب تجھکو
کیا ہائے شیطاں نے مغلوب تجھکو
سمجھ لینااب چاہیے خوب تجھکو
نہ دلداداءِشہر کوئی رہے گا
نہ گرویدۂ شُہرا جوئی رہے گا
نہ کوئی رہا ہے نہ کوئی رہے گا
رہے گا تو ذکرِ نِکوئی رہے گا
جب اس بزم سے اٹھ گئے دوست اکثر
اور اٹھتے چلے جا رہے ہیں برابر
یہ ہر وقت پیشِ نظرجب ہے منظر
یہاں پر تیرا جی بہلتا ہے کیوں کر
شاعر: خواجہ عزیزالحسن مجذوبؒ
No comments:
Post a Comment