کبھی یٰسین و مُبَشِّر کبھی طہٰ لکھوں
زندہ جب تک رہوں نعتِ شہِ والا لکھوں
کعبہ قوسین نے حد کھینچ رکھی ہے ورنہ
ذکر معراج کا چھڑ جائے تو کیا کیا لکھوں
وصفِ آئینہ ہیں خود آئینہ گر کی توصیف
حمد لکھنا ہو تو احمدکا سراپا لکھوں
نعت لکھنے کی تمنا لیے اِس سوچ میں ہُوں
وہ جو ممدوحِ خدا ہے اُسے میں کیا لکھوں
اُن کے دربار سے مل جائے غلامی کی سند
میرے معبود کوئی لفظ تو ایسا لکھوں
سایہ گُستر نہ ہو گر صورتِ ولَّیل وہ زلف
ساری دنیا کو میں تپتا ہوا صحرا لکھوں
یہی حسرت ہے کہ ہر دل میں وہی ہوں اُمیدؔ
اور میں شوق سے ہر دل کو مدینہ لکھوں
شاعر: امید فاضلی
No comments:
Post a Comment