مدینہ کی وہ اَن دیکھی فضائیں یاد آتی ہیں
وہ صحرا کے نظارے وہ ہوائیں یاد آتی ہیں
نہیں بُھولے ابھی تک بوذر و صدیق کے قصے
وہ پیکرصدق کے اُن کی وفائیں یاد آتی ہیں
وہ بارش پتھروں کی مکہ وطائف کی گلیوں میں
ستم لوگوں کے آقا ﷺ کی دعائیں یاد آتی ہیں
تحائف سے اسیروں کو بھی اک اعزاز بخشا ہے
وہ سر پر بنتِ حاتم کی رِدائیں یاد آتی ہیں
تمنا یہ کہ کانٹوں کی جگہ بھی پھول کِھل جائیں
حرا کے غار کی وہ التجائیں یاد آتی ہیں
میں اقدس جب شفیع المذنبیں کی نعت پڑھتا ہُوں
معاصی یاد آتے ہیں خطائیں یاد آتی ہیں
کہیں وہ بدر کے لمحے کہیں خندق کی وہ باتیں
نبی ﷺ کے جانثاروں کی ادائیں یاد آتی ہیں
No comments:
Post a Comment