میری زندگی کا تجھ سے یہ نظام چل رہا ہے
تیرا آستاں سلامت میرا کام چل رہا ہے
نہیں عرش و فرش پر ہی تیری عظمتوں کے چرچے
تہِ خاک بھی لحد میں تیرا نام چل رہا ہے
وہ تیری عطا کے تیور وہ ہجوم گِردِ کوثر
کہیں شورِ مَے کشاں ہیں کہیں جام چل رہا ہے
کسی وقت یامحمدؐ کی صدا کو میں نہ بُھولا
دمِ نزع بھی زباں پر یہ کلام چل رہا ہے
میرے ہاتھ آگئی ہے یہ کلیدِ قُفلِ مقصد
تیرا نام لے رہا ہوں میرا کام چل رہا ہے
کوئی یاد آرہا ہے میرے دل کو آج شاید
جو یہ سیلِ اشکِ حسرت سرِ شام چل رہا ہے
وہ برابری کا تُو نے دیا درس آدمی کو
کہ غلام ناقَہ پر ہے تو امام چل رہا ہے
یہ اثر ہے تیری سنّت کے مذاقِ سادگی کا
رہِ خاص چلنے والا رہِ عام چل رہا ہے
تیرے لطف خسروی پر میرا کٹ رہا ہے جیون
میرے دن گزر رہے ہیں میرا کام چل رہا ہے
مجھے اِس قدر جہاں میں نہ قُبول عام ملتا
تیرے نام کے سہارے میرا نام چل رہا ہے
تیری مُہر کیا لگی ہے کہ کوئی ہنر نہ ہوتے
میری شاعری کا سکّہ سرِ عام چل رہا ہے
یہ تیری دعا کہ ہے کچھ ابھی ہم میں وضع داری
یہ تیری نظر کہ آپس میں سلام چل رہا ہے
میں تیرے نثار آقاؐ یہ حقیر پر نوازش
مجھے جانتی ہے دنیا میرا نام چل رہا ہے
تیرا اُمّتی بس اتنی ہی تمیز کاش کرلے
وہ حلال کھا رہا ہے کہ حرام چل ہے
کڑی دُھوپ کے سفر میں نہیں کچھ نصیرؔ کو غم
تیرے سایہءِکرم میں یہ غلام چل رہا ہے
شاعر: پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی ؒ
No comments:
Post a Comment