جذبہ ءِ حسرتِ دیدار جو تڑپاتا ہے
اپنی کوتاہ نگاہی کا خیال آتا ہے
جب بھی آجاتا ہے سہواً کبھی جنت کا خیال
تیرا مسکن تیرا در سامنے آجاتا ہے
حق نے جس شہر کے ذرّوں کی قسم کھائی ہے
واں ابھرتے ہوئے خورشید بھی شرماتا ہے
دیکھ کر وسعتِ دامانِ کرم حشر کے دن
میرا دامانِ طلب آپ ہی شرماتا ہے
کوئی روتا ہے تو بھر آتی ہیں آنکھیں میری
میں سمجھتا ہُوں مدینہ اِسےیاد آتا ہے
نعت کا رنگ جو بدلا تو میں سمجھا اعظمؔ
پہلے میں کہتا تھا اب کوئی کہلواتا ہے
شاعر: اعظم چشتی
No comments:
Post a Comment