حمدِ باری تعالیٰ
میں بندۂ عاصی ہُوں خطاکار ہُوں مولا
لیکن تیری رحمت کا طلبگار ہُوں مولا
وابستہ ہے امید میری تیرے کرم سے
تیرا ہُوں فقط تیرا پرستار ہُوں مولا
اک سُوت کی اَٹّی میرے سانسوں کا اثاثہ
اور یوسفِ ہستی کا خریدار ہُوں مولا
تیغ و تبر و خود و ذرہ تھے میرا زیور
اب شیفتۂ جُبہّ و دستار ہُوں مولا
باہر کے اُجالے مجھے کیا راہ سُجھائیں
اندر کے اندھیروں میں گرفتار ہُوں مولا
تاریخ بھی میری نہیں پہچانتی مجھ کو
کیسا میں یہ جغرافیہ بردار ہُوں مولا
جن سے میں گزر جاؤں وہ در کھول دے مجھ میں
خود اپنے ہی رستے کی میں دیوار ہُوں مولا
پھر سےمیرے اسلاف کی جانب مجھے لے چل
میں لمحۂ آئندہ کو درکار ہُوں مولا
یہ نقطۂ آسود بھی میرے دل سے مٹادے
سینے میں چُھپے چور سے بیزار ہُوں مولا
پھر تُو میرے ایماں کو توانائی عطا کر
برسوں نہیں صدیوں سے میں بیمار ہُوں مولا
اس برف سی جاں کو بھی پگھلتے ہوئے دیکھوں
دریوزہ گرِ شعلۂ دیدار ہُوں مولا
پستی سے اُبھرنے کی اگر شرط ہو سُولی
سُولی پہ بھی چڑھنے کو میں تیار ہُوں مولا
اُتنا ہی ڈبودے مجھے دریائے عمل میں
جتنا بھی میں اب تشنۂ کردار ہُوں مولا
اک تیرا اشارہ ہو اور آسان ہو مشکل
اک لہر اٹھے اور میں اُس پار ہُوں مولا
شاعر: مظفر وارثی
No comments:
Post a Comment