کلام
مجھ پہ بھی چشم کرم اے میرے آقاؐ کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضا کرنا
میں کہ ذرہ ہوں مجھے وسعت صحرا دےد ے
کہ تیرے بس میں ہےقطرے کو بھی دریا کرنا
میں ہوں بے کس تیرا شیوہ ہے سہارا دینا
میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا
تُو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے
کہ تیری شان کہ شایاں نہیں ایسا کرنا
تیرے صدقے وہ اُسی رنگ میں خود ہی ڈوبا
جس نے جس رنگ میں چاہا مجھے رسوا کرنا
یہ تیرا کام ہے اے آمنہ کے دُرِّ یتیم
ساری امت کی شفاعت تنِ تنہا کرنا
کثرتِ شوق سے اوسان مدینے میں ہیں گُم
نہیں کُھلتا کہ مجھے چاہیےکیا کیا کرنا
یہ تمنّائے محبت ہے کہ اے داورِ حشر
فیصلہ میرا سپردِ شہِ بطحاؐ کرنا
آل و اصحاب کی سنت میرا معیارِ وفا
تیری چاہت کے عوض جان کا سودا کرنا
شاملِ مقصدِ تخلیق یہ پہلو بھی رہا
بزمِ عالم کو سجا کر تیرا چرچا کرنا
یہ صراحت وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکْ میں ہے
تیری تعریف کرانا تجھے اونچا کرنا
تیرے آگے وہ ہر اک منظرِ فطرت کا ادب
چاند سورج کا وہ پہروں تجھے دیکھا کرنا
طبعِ اقدس کے مطابق وہ ہواؤں کا خرام
دھوپ میں دوڑ کے وہ ابر کا سایہ کرنا
دشمن آجائے تو اٹھ کر وہ بچھانا چادر
حسنِ اخلاق سے غیروں کو وہ اپنا کرنا
کوئی فاروق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دل کی دنیا کو نظر سے تہ وبالا کرنا
اُن صحابہ کی خوش اطوار نگاہوں کو سلام
جن کا مسلک تھا طوافِ رُخِ زیبا کرنا
مجھ پہ محشر میں نصیرؔ اُن کی نظر پڑ ہی گئی
کہنے والے اسے کہتے ہیں خدا کا کرنا
شاعر: پیر سید نصیرالدین نصیرؒ
No comments:
Post a Comment