ہم ہیں التجا والے آپؐ ہیں عطا والے
بھیک کچھ عطا کرنا اے میرے سخا والے
چھیڑ نہ ہمیں دنیا ہم ہیں مصطفی والے
سیدُالورا والے شاہِ دوسرا والے
ابنِ مرتضیٰ نے کہا سُن شمر جفا والے
ناناہے نبیؐ اپنا ہم ہیں کربلا والے
میں مریضِ طیبہ ہُوں اُس گلی میں لے جاؤ
ہاں وہی گلی جس کے ذرّے ہیں شفا والے
خود کہا میرے ربّ نے بخش دُوں گا میں سب کو
آئیں یار کے در پر جتنے ہیں خطا والے
مر تو جائیں گے لیکن غیر سے نہ مانگیں گے
آپؐ کے بھکاری تو ہیں بڑی انا والے
وقت کے سلاطیں بھی بھیک لینے آتے ہیں
تاجدار ایسے ہیں یہ خاکِ نقشِ پا والے
مال و زر کی اے الطافؔ کچھ نہیں ہمیں پرواہ
جان بھی لُٹاتے ہیں آدمی وفا والے
شاعر: سید الطاف شاہ کاظمیؔ
No comments:
Post a Comment