چھوڑ فکر دنیا کی چل مدینے چلتے ہیں
مصطفی غلاموں کی قسمتیں بدلتے ہیں
رحمتوں کی چادر کے سر پہ سائے چلتے ہیں
مصطفی کے دیوانے گھر سے جب چلتے ہیں
ہم کو روز ملتا ہے صدقہ پیارے آقاؐ کا
اُن کے در کے ٹکڑوں پر خوش نصیب پلتے ہیں
آمنہ کے پیارے کا سبز گنبد والے کا
جشن ہم مناتے ہیں،جلنے والے جلتے ہیں
صرف ساری دنیا میں وہ طیبہ کی گلیاں ہیں
جس جگہ پہ مجھ جیسے کھوٹے سِکے چلتے ہیں
ذکرِ شاہِ بطحہ کو ورد اب بنا لیجے
یہ وہ ذکر ہے جس سے غم خوشی میں ڈھلتے ہیں
نقش کر لے سینے پر نام سرورِ دیں کا
یہ وہ نام ہے جس سے سب عذاب ٹلتے ہیں
اُن کو کیا ضرورت ہے عطر مشک و عنبر کی
خاک جو مدینے کی اپنے تن پہ ملتے ہیں
اے کاش کوئی آکر کہہ دے میرے کانوں میں
چل تجھ کو مدینے میں مصطفی بلاتے ہیں
سچ ہے غیر کا احسان وہ کبھی نہیں لیتے
اے علیم آقاؐ کے جو ٹکڑوں پہ پلتے ہیں