ہر دل کی تسلی بھی ہے ہر غم کی دوا بھی
کیا چیز ہے مولا تیری خاکِ کفِ پا بھی
تم سا کوئی اے ختمِ رُسُل اور ہوا بھی
مقصودِ خدائی بھی ہو محبوبِ خدا بھی
ہونے کو تو ہوگی دلِ مضطر کی دوا بھی
اکسیر ہے لیکن تیرے دامن کی ہوا بھی
میں تم سے وہ کہتا ہُوں جو کہنا ہے خدا سے
جب تم میری سُن لو گے تو سُن لے گا خدا بھی
اُس موت پہ اک میں نہیں سو جان تصدُّق
جس موت کے ساتھ آئے مدینے کی ہوا بھی
اے ابر کرم دھوئیں گے اب کیا میرے آنسو
دھبّہ کوئی اب دامنِ عصیاں میں رہا بھی
چھا جائے گھٹا تو پئیں ہم یوں نہیں پیتے
پیتے ہیں تو چھا جاتی ہےرحمت کی گھٹا بھی
شاعر: منور بدایونی
No comments:
Post a Comment